امی نے کہا بیٹا! تمہیں کتنی بار منع کیا ہے لڑکوں سے خواہ مخواہ نہ الجھا کرو‘ آج کل تو یہاں لوگ آسانی سے انسانوں کو مار دیتے ہیں اور تم جانوروں‘ پرندوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہو‘ بیٹا! کسی کو کہنا فضول ہے۔امی جان! جانوروں اور پرندوں کی حفاظت کرنا اور ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے
شہزاد اور شکیلہ دونوں بہن بھائی تھے‘ دونوں بہت شریر تھے۔ محلے والے اکثر ان کی شکایتیں لے کر ان کی امی کے پاس آجاتے تھے۔ امی دونوں کی خوب خبر لیتی تھیں‘ مگر دونوںمعصومیت کا سہارا لے کر اور کچھ باتیں بنا کر سچے ہوجاتے‘ تب ان کی امی جان شکایت لے کر آنے والے کو خوب سنادیتیں‘ اس پر دونوں بہن بھائی خوب ہنستے پھر ساری حقیقت سے امی کو آگاہ کردیتے‘ امی پھر انہیں مارنے کو بھاگتیں تو وہ جلدی سے اپنے ابو کے پیچھے چھپ جاتے۔ ان کے ابو ان کو بہت پیار کرتے تھے۔
شہزاد اور شکیلہ سکول میں بھی اچھے طالب علموں میں شمار ہوتے تھے ہر بار اچھے نمبروں سے پاس ہوتے تھے‘ بس اسی وجہ سے پرنسپل صاحب بھی ان کی شرارتوں پر معاف کردیتے تھے۔
معصوم پرندے بھی جاندار ہیں:ایک دن وہ دونوں سکول سے واپس آرہے تھے‘ انہوں نے دیکھا ایک لڑکا غلیل سے پرندوں کو مار رہا ہے۔ شہزاد نے شکیلہ سے کہا: دیکھو وہ لڑکا پرندوں کا شکار کررہا ہے۔ آؤ ہم اس کو منع کریں کہ وہ پرندوں کو نہ مارے… دونوں‘ لڑکے کے پاس گئے اور اس سے کہا: ارے‘ بھائی! تم ان بے چارے معصوم پرندوں کو کیوںماررہے ہو؟ انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ لڑکے نے غصے سے دونوں کی طرف دیکھا اور کہا: تم کون ہوتے ہو مجھے منع کرنے والے؟؟؟
دیکھو بھائی…! ناراض مت ہو‘ یہ پرندے جنہیں تم مار رہے ہو یہ بھی ہماری طرح جان دار ہیں‘ یہ بھی اپنے بچوں کیلئے کھانا لینے جاتے ہیں اگر یہ گھر نہ پہنچے تو ان کے بچے ایک تویہ کہ ڈرتے رہیں گے دوسرے وہ بھوکے رہ جائیں گے اور وہ بھوک سے مرجائیں گے اور اس کا گناہ تمہارے سر ہوگا۔ اگر خدا نہ کرے تمہاری امی ابو کہیں… اس لڑکےنے دونوںکی طرف غصے سے دیکھا اور کہا: اوے…!!!!… زیادہ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں… سمجھے…!!!! یہ غلیل میرے ابو نے مجھے پاس ہونے پر تحفے میں دی تھی‘ جانتے بھی ہو یہ بہت قیمتی ہے؟ اگر اس سے چڑیا نہ ماروں تو کیا چوہے ماروں…؟
شہزاد نے کہا: دیکھو بھائی یہ غلیل تو صرف نشانہ بازی کیلئے ہوتی ہے اگر تمہارے ابو یہ پیسے کسی اور کام میں لگاتے تو یقیناً انہیں ثواب ہوتا‘ اس طرح تو یہ بے زبان پرندے بددعائیں دیں گے۔لڑکے کو ان کی نصیحتوں پر تاؤ آگیا… اس نے غصے میں آکر غلیل کا رخ ان کی طرف کرتے ہوئے کہا: جاتے ہو یا تمہیں بھی نشانہ بناؤں؟ شکیلہ نے جلدی سے شہزاد کا بازو پکڑا اور دونوں گھر کی طرف چل پڑے۔ دونوں گھر پہنچے تو امی نے شہزاد کو دیکھتے ہی کہا: بیٹے کیا بات ہے‘ آج تمہارا موڈ ٹھیک نہیں ہے لگتا ہے سکول سے گھر کاکام زیادہ مل گیا ہے؟شکیلہ نے کہا: امی جان آپ کو شہزاد بھائی کی عادت کا علم ہے نا… ایک لڑکا غلیل سے پرندوں کو مار رہا تھا شہزاد بھائی نے اپنی عادت کی وجہ سے اس کومنع کیا‘ وہ لڑکا غصے میں آگیا اور اس نے غلیل کا رخ ہماری طرف کردیا اور بس…
کتاب پر خون کےچھینٹے کیسے؟امی نے کہا بیٹا! تمہیں کتنی بار منع کیا ہے لڑکوں سے خواہ مخواہ نہ الجھا کرو‘ آج کل تو یہاں لوگ آسانی سے انسانوں کو مار دیتے ہیں اور تم جانوروں‘ پرندوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہو‘ بیٹا! کسی کو کہنا فضول ہے۔امی جان! جانوروں اور پرندوں کی حفاظت کرنا اور ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے اور ان سے ہماری محبت کی نشانی ہے‘ امی یہ بھی ہماری طرح جان دار ہیں‘ ان کی بھی اولاد ہے‘ ان کے بھی امی ابو ہوتے ہیں‘ ان کومارنے سے ان کے امی ابو کو کتنا دکھ ہوتا ہوگا اور آپ خود سوچیں! اگر ہمیں کوئی مارے تو… آپ کا کیا حال ہوگا…؟ معاف کرنا بیٹا! میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا۔ واقعی تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔
ایک دن شہزاد اور شکیلہ اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے ہوم ورک کررہے تھے‘ اچانک دونوں کی نظر اپنی کتابوں پر پڑی‘ وہ چونک گئے‘ کتابوں پر خون کے چھینٹے پڑے تھے۔ دونوں ڈر گئے اور فوراً کھڑے ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے‘ چند سیکنڈ کے بعد چھوٹے چھوٹے ’’پر‘‘ ان پر آکر گرے شہزاد نے پنکھے کی طرف دیکھا اور شکیلہ سے کہا: ضرور کوئی چیز پنکھے کے ساتھ ٹکرائی ہے۔
اچانک کسی چیز کے پَھڑ پَھڑانے کی آواز آنے لگی‘ شہزاد نے دیکھا آواز صوفے کے نیچے سے آرہی تھی‘ اس نے جلدی سے جھک کر صوفے کے نیچے دیکھا تو ایک چڑیا پھڑپھڑا رہی تھی۔ شہزاد نے احتیاط سے چڑیا کو پکڑا اور شکیلہ کو فرسٹ ایڈ کا ڈبہ (جس ڈبے میں اچانک ضرورت پڑجانے والی دوا‘ مرہم اور پٹی رکھتے ہیں) لانے کو کہا۔ اتنی دیر میں شہزاد نے وہاںموجود گلاس سے چڑیا کوپانی پلانا چاہا لیکن اسکے منہ سے خون بہنے کی وجہ سے پانی کا رنگ لال ہوگیا‘ شہزاد گھبرایا۔ مرہم پٹی کے بعد چڑیا کو اپنے کمرے کی الماری میں چھوڑ دیا‘ صبح امی جان دونوں کے کمروں میں گئیں تو دیکھا دونوں اپنے اپنے کمروں سے غائب ہیں۔ ماں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو دونوں لان میں چڑیا کو آہستہ آہستہ اُڑانے کی کوشش کررہے تھے‘ ماں حیران ہوکر ان دونوں کے پاس گئی‘ امی یہ چڑیا ہمارے پنکھے سے ٹکراگئی تھی۔ شہزاد نے ڈرتے ڈرتے کہا…!!!
چڑیا کا آپریشن:اور جھٹ سے شکیلہ بولی: امی جان شہزاد بھائی نے جو فوراً دوا اور مرہم پٹی کردی اس کوشش میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہوگئی اور اللہ نے اپنے کرم سے اس چڑیا کو بچالیا ہے۔ اب ٹھیک ہوگئی ہے۔ آپ کو اس لیے نہیں بتایا کہ کہیں آپ ہمیں ڈانٹیں نہیں۔ امی نے کہا نہیں بیٹا…! تم نے بہت اچھا کام کیا ہے‘ اس پر تو ہر کوئی تمہیں شاباش دے گا۔ یہ تو چڑیا ہے اگر ہم انسان اس طرح ایک دوسرے کا احساس کریں‘ مدد کریں تو سب مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ شہزاد نے کہا: احساس کیسے ہوتا ہے؟ بیٹا! ہمیں جانوروں‘ پرندوں سے یہ احساس سیکھنا چاہیے کہ جیسے جانور اور پرندے بھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح ہم بھی آپس میں ایک دوسرے کا خیال کریں تم لوگوں نے دیکھا ہوگا جب کوئی پرندہ مرتا ہے تو بہت سارے پرندے اکٹھے ہوجاتے ہیں وہ دراصل مرنے والے پرندے کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ تم دونوں نے اس چڑیا کی جان بچانے میں اپنی کوشش کی۔شکیلہ بولی‘ شہزاد بھائی! چڑیا تو ٹھیک ہورہی ہے ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کررہی ہے‘ شہزاد نے کہا: آزادی تو سب کو پیاری ہے لیکن آج نہیں ہم چڑیا کو کل چھوڑیں گے۔ امی نے کہا: بچو! نیک کام میں دیر کیسی! آج کے دن کا آغاز نیک کام سے کرو‘ اب اس چڑیا کو آزاد کردو۔ دونوں بہن بھائی نے چڑیا کی طرف دیکھا۔ چڑیا نے بھی بڑے پیار سے دونوں کی طرف دیکھا اور دو تین بار اپنا سر اوپر نیچے کیا جیسے وہ دونوں کا شکریہ ادا کررہی ہو۔ تب انہوں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے آزاد کردیا۔ وہ چڑیا پھر سے اڑ گئی اور سامنے گھر کی دیوار پر بیٹھ گئی۔ شہزاد دوبارہ اسے پکڑنے کیلئے بھاگا تو اسے امی جان نے روک لیا… اور کہا: رہنے دو بیٹا! وہ اب خود اڑ جائے گی وہاں بیٹھ کر تمہارا شکریہ ادا کررہی ہے۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘ شہزاد اور شکیلہ کے ہاتھ خودبخود اوپر اٹھ گئے وہ چڑیا کو گویا دور سے سلام کہہ رہے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں